غیرمسلموں کی شرعی حیثیت
اورنگ زیب عالم گیر اور غیرمسلم
پورے مسلم
حکمرانوں میں سب سے زیادہ تیموری حکمراں اورنگ زیب
عالم گیر پر یہ الزام لگایاجاتا ہے کہ اس نے اپنی حکومت میں
شدت پسندی سے کام لے کر غیرمسلموں کو طرح طرح سے معتوب و رسوا کیا،
حکومت کے عہدے و مناصب سے انھیں محروم رکھا اور نامنصفانہ طریقے سے جزیہ
وصولی کا حکم جاری کیا۔ دراصل اس قسم کے اعتراضات و
الزامات اورنگ زیب پر اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ اس نے بڑی
کوشش کی کہ سلطنت کو اسلامی رنگ میں ڈھالاجائے اور سارے امور
قوانین اسلام کی روشنی میں انجام پائیں۔ جس میں
وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ تاہم یہ کام اس کے لیے
آسان بھی نہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب
ہندوستان میں اسلام کے تجدید واحیا کی بات نکلے گی
تو اورنگ زیب کا نام نامی ضرور لیا جائے گا، جیسا کہ
علامہ اقبال کی رائے بیان کرتے ہوئے علی میاں لکھتے ہیں:
”ہندوستان میں
اسلام کے تجدید و احیاء کی بات نکلی تو علامہ نے مجدد الف
ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی
اور سلطان اورنگ زیب کی بڑی تعریف کی اور فرمایا
کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ان کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ
ہوتی تو ہندوتہذیب و فلسفہ اسلام کو اپنے اندر تحلیل کرلیتے۔“
غور کیا
جاسکتا ہے کہ دہلی سلطنت کے زوال کے بعد باقاعدہ اور منظم حکومت مغلوں کی
قائم ہوئی۔ بابر اورہمایوں کو ہندوستان میں اپنے قدم
جمانے میں کافی وقت لگا، لیکن اکبر کو طویل مدت تک حکومت
چلانے کا موقع ملا، مگر اس طویل مدت میں اس نے یا اس کے عہد میں
اسلام کو جو نقصان پہنچا اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں
کی جاسکتی۔ جہاں گیر بھی کسی حد تک اپنے باپ
کے طور طریقے اور رسم و رواج پر عامل رہا۔ البتہ شاہ جہاں بادشاہ نے دین
و شریعت کو فروغ دینے کی ضرور کوشش کی جس کی بنا پر
وہ حامی اسلام کہلانے کا مستحق ہوا۔ پھر بھی اس زمانے میں
اسلام کو پوری تقویت نہ مل سکی، کہ اسی کسمپرسی کے
عالم میں اورنگ زیب عالم گیر نے بڑی کوڑوھور کے بعد سلطنت
تیموری پر قابض ہوا۔ چوں کہ وہ شروع سے دینی مزاج
کا حامل تھا، اس لیے اس نے سال جلوس کے دوسرے سال ہی اس نے جو فرمان
صادر کیے اس میں زور دیا کہ ہندوستان میں اسلامی
قوانین کا نفاذ ہو اور لوگوں کی زندگی قرآنی تعلیمات
سے ہم آہنگ۔
غیرمسلموں کے ذمے سلطنت کے عہدے اور مناصب
جہاں تک غیرمسلموں
کو عہدے و مناصب سے الگ تھلگ رکھنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں سب سے
پہلی بات یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ترک سلاطین کے یہاں
نسلی و خاندانی برتری کا تصور بہت تھااور خاص کر دہلی
سلطنت کے ابتدائی زمانے میں حکومت کے مزاج میں یہ تصور
کافی پایاجاتا تھا، یہاں تک کہ اس وقت انتظامیہ کے اہم
عہدوں پر تقرری ہندنژاد مسلمانوں کے مقابلہ میں ترک نژاد اشخاص کو ترجیح
دی جاتی تھی، اس لیے اس معاملہ میں ہندوؤں کے ساتھ
جو طرز عمل اختیار کیا گیا اسے اس صورت حال کی روشنی
میں دیکھا جانا چاہیے۔ باوجود اس کے اس عہد میں
حکومت کی انتظامیہ میں شمولیت ہندوؤں کی بہت تھی۔
مثلاً محکمہ مالیات بالخصوص محاصل کے شعبہ میں ان کی بھرتی
ہوتی رہی۔ خراج اور دوسرے محاصل کی تحصیل میں
ہندو سردار اور مقامی روسا کا عمل دخل زیادہ رہا۔ خود سلطان فیروز
شاہ کے محافظی دستہ میں راجپوت شامل تھے اوراس دستہ کا سربراہ بھی
ایک ہندو تھا۔ اسی طرح سرکاری ٹکسال کا افسر اعلیٰ
ہندو ہی تھا۔
یہ امر بھی
ملحوظ رکھا جائے بعض سلاطین کے عہد میں زبان کی ناواقفیت
کی بنا پر سلطنت کے عہدے اور سرکاری امور ان کے ذمے نہ سپرد کیے
جانے کی ایک اہم وجہ تھی، لیکن مسلم بادشاہوں نے اس کی
تلافی کے لیے غیرمسلموں کو فارسی زبان سکھانے کا بندوبست
کیا تاکہ وہ ملازمتوں میں حصہ پاسکیں اور حکومت کے کاموں میں
شریک ہوسکیں، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ:
”جب سلطان سکندر
لودھی نے دیکھا کہ اہل کاران و عہدیداران میں ہندو نظر نہیں
آتے تواس نے ہندوؤں کو ان کا یہ حق دینا چاہا، مگر معلوم ہوا کہ ہندو
فارسی زبان سے بالکل ناواقف ہیں اور اس وقت کوئی ہندو بھی
ایسا نہیں جو فارسی جانتا ہو۔ چنانچہ سلطان نے سب سے پہلے
برہمنوں کو بلاکر ان سے فارسی پڑھنے کو کہا۔ انھوں نے اپنی مذہبی
ضروریات اور مصروفیتوں کے پیش نظر انکار کردیا۔ پھر
چھتریوں سے کہا گیا، مگر یہ فوجی زندگی ہی کو
اپنے لیے سربلندی کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ انھوں نے
بھی اظہار مجبوری کیا، ویش قوم کے لوگ تجارت سے زیادہ
دلچسپی رکھتے تھے، یہ خدمت مذہبا ان پر فرض تھی وہ بھی اس
ذمہ داری کو قبول نہ کرسکے۔ اعلیٰ قوموں میں کایستھوں
نے فارسی کو اپنے عروج کا ذریعہ بنایا اور فارسی پڑھنے پر
آمادہ ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے فارسی زبان سیکھ کر مسلمانوں کے
عہد سلطنت میں زبردست عروج حاصل کیا اور بڑے بڑے عہدوں پر مامور
ہوئے۔ انھوں نے مسلمانوں کے علوم میں اتنی دستگاہ بہم پہنچائی
کہ ان علوم کا درس دینے لگے۔
چوں کہ اس زمانہ
تک سرکاری زبان فارسی ہوگئی تھی اور تمام دفتری کام
اسی زبان میں انجام پاتے تھے، زبان کی ناواقفیت کی
بنا پر غیرمسلم سرکاری عہدوں میں نہیں تھے۔ باوجود
سلطان سکندر ایک کٹرمذہبی انسان ہونے کے اسے یہ فکر دامن گیر
ہوئی ہندو بھی ہماری رعایا ہے اس لیے زبان دانی
کے مسئلہ کو حل کرکے حکومت کے امور اور عہدے ان کے سپرد کیے جائیں۔
کسی بادشاہ وقت کواپنی رعایا کے لیے اتنی فکر ہو
اسے کیوں کر فراموش کیا جانا چاہیے۔
باوجود اس رواداری
کے اسے بھی ایک کٹر اور سنی مسلمان کے خانہ میں شامل کرکے
اسے ہندوکش اور متعصب قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جاتاہے کہ
اس نے مندر مسمار کیے جس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ کروکشتر
کے تالاب میں ہندو بکثرت جمع ہوتے اور اشنان کرتے۔ سکندر نے چاہا کہ اس
کنڈ کو تباہ کرکے اس اجتماع کو روک دے۔ اس زمانہ کے ایک عالم مولانا
عبداللہ سے استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ قدیم رسم کو
روکنا اور قدیم بت خانہ کو منہدم کرنا بالکل جائز نہیں، سکندر کو یہ
جواب پسند نہ آیا، وہ سمجھا کہ طرف داری کافتویٰ
ہے۔ اپنی برہمی کا اظہار کیا، لیکن انھوں نے بڑی
جرأت اور صفائی سے فرمایا کہ میں نے شریعت کا مسئلہ بیان
کردیا، اگر شریعت کی پروا نہیں تو پھرپوچھنے کی
ضرورت ہی کیا ہے۔ اس جواب کے بعد سلطان نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔
جزیہ توہین آمیز ٹیکس ہرگز
نہیں:
جو حضرات صرف جزیہ
کو لے کر یا انہدام منادر کو لے کر غیرمسلموں کی طرف داری
کرتے ہوئے یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ ان افعال سے ہندو مسلمانوں کی
بہ نسبت پست اور کمزور ہوگئے ان کی سماجی اور معاشی حیثیت
گھٹ گئی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ محمد بن قاسم کے بعد
سے ہندوستان میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی صرف تین
سلاطین کے عہد میں جزیہ کی وصولی ہوئی۔
ورنہ بیشتر سلاطین کے عہد میں ان پر سے یہ بوجھ جو شرعی
نوعیت کا تھا ہٹارہا۔ باوجود اس کے تینوں سلاطین کے عہد میں
غیرمسلم بخوشی جزیہ ادا کرتے رہے اوراپنے آپ کو کسی بھی
طرح کا کمتر شہری تصور نہ کرتے تھے۔ حالانکہ تمام سلاطین کے عہد
میں شریعت کا دارومدار اوراس کی افہام و تفہیم کی
ساری ذمہ داری علماء کے ذمہ سپرد تھی اور وہ شریعت کی
روشنی میں اس کا نفاذ بھی کرنے کے خواہاں تھے، مگر کسی
سلاطین نے سیاسی مفاد کے تحت اس کو نافذ نہیں کیا۔
چنانچہ سیدصباح الدین کا یہ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیا
جائے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ٹیکس کی وصولی
سے غیرمسلموں کو کیا کیا فوائد حاصل ہوئے:
”اسی طرح
جزیہ کو ایک توہین آمیز ٹیکس سمجھا جاتا ہے اور یہ
محض اس لیے کہ سلاطین اور علماء دونوں نے اس کے روشن پہلو کی
وضاحت پوری طرح نہیں کی۔ جزیہ دراصل اس ٹیکس
کو کہتے ہیں جو اسلامی حکومت اپنی غیرمسلم رعایا سے
اس خدمت کے معاوضہ میں وصول کرتی ہے کہ وہ ان کے سیاسی،
معاشرتی اور مذہبی حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اس
ٹیکس کے لینے کے بعد حکومت ہر طرح سے ذمیوں کے جان ومال کی
نگرانی کرتی تھی اور ایسا کرنا اس کے مذہبی فریضہ
میں داخل تھا اور جو حکومت ان کی حفاظت کرنے سے قاصر رہتی اس کو
جزیہ وصول کرنے کا حق نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ کسی عالم یا
فقیہہ نے جزیہ کا کچھ اورمطلب بتایا تو یہ اس کا قصور ہے،
ٹیکس کا نقص نہیں۔ علماء کے اصرار کے باوجود مسلمانوں کے پورے
دور حکومت میں صرف تین حکمرانوں علاء الدین خلجی، فیروز
تغلق اور اورنگ زیب کے عہد میں یہ ٹیکس لگایا گیا
اوراس زمانہ میں یہ ٹیکس اتنا اشتعال انگیز نہیں
سمجھا گیا جتنا اب طرح طرح کی موشگافیوں سے سمجھا جانے لگا
ہے۔ اس زمانے کے تمام راجہ اس کو اور ٹیکسوں کی طرح ایک ٹیکس
سمجھ کر ادا کردیاکرتے تھے اور کسی حال میں وہ اپنے کو کمتر
درجہ کا شہری تسلیم نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ اب یہی
بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس غیرمسلموں کو سیاسی، اقتصادی،
مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے ہٹاکر گری ہوئی
حالات میں رکھنے کے لیے عائد کیا جاتا تھا۔ مگر جب ہاتھ میں
تلوار موجود تھی تو ایسا کرنے کے لیے ٹیکس لگانے کی
کیا ضرورت تھی اورایسے مورخ کی کوئی وقعت نہیں
ہوگی جو یہ تسلیم نہ کرے کہ ملک گیری کے سلسلے میں
مسلمانوں کی تلوار تو خوب چمکی لیکن ملک داری میں
ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی، وہ میدان
جنگ میں خواہ کیسی ہی خوں ریزی کرتے لیکن
جنگ کے بعد معتدل روش اختیار کرلیتے؛ کیوں کہ ملک کی
زراعت اور تجارت ہندوؤں کے ہاتھوں میں تھی، اونچے عہدے دار تو مسلمان
ضرور تھے لیکن دوسرے تمام عہدے ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہوتے تھے، کیوں
کہ ان کی مدد کے بغیر حکومت کا ڈھانچہ کھڑا نہیں ہوسکتا
تھا۔ اور اگر ان کے ساتھ روادارانہ سلوک نہ کیا جاتا تو تھوڑی
تعداد اور قلیل فوج کی مدد سے ہر جگہ مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں
رہ سکتی۔“
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 91 ، جمادی الاولی
1428 ہجری مطابق جون2007ء